• قصص وواقعات

واقعہ کربلا کے بعد : سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار

واقعہ کربلا کے بعد سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار
تحقیق وترتیب : مفتی محمد رمضان جامی
اہل بیت اطہا ر علیہم السلام وہ مقدس نفوس ہیں جوفیوضات ِنبو ت ﷺ سے براہِ راست فیض یا ب ہو ئے اور رہتی دنیا تک نورالہٰی اورراہِ حق کے صحیح تر جما ن بن گئے۔ خانوادئہ رسول علیہم السلام ہی وہ مبارک خاندان ہے جس کے معزز و مبارک افراد نے بقائے حق اور فنائے باطل کے لیے ایثار و قربانی، صبر واستقامت، جرأت و شجاعت اورہمت وعزیمت کی بے مثا ل و بے نظیر مثالیں قا ئم کر دیں اور راہ ِحق پہ بے خوف و خطر چلتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
وا قعہ کر بلا جہاں فخر بشریت، نوا سہء رسول امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کی قر با نیو ں کا مظہرہے وہیں آپ کے جگر پارے سید الساجدین سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کے کامل کر دار کی عظمتوں کا امین بھی ہے،آپ کا اسم گرامی’’علی بن حسین‘‘ کنیت ابومحمد، ابوالحسن اور القابات، زین العابدین اور سجاد، ہیں۔ سید الساجدین سیدناامام زین العابدین علیہ السلام سید الشہدا سیدنا امام حسین علیہ السلام اور سیدہ شہربانوسلام اللہ علیہا کے لخت جگر ہیں۔ سیدناامام زین العابدین علیہ السلام33 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔زندگی کے پہلے سات برس اپنے جد امجد امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی معیت میں بسر فرمائے اور خصوصی باطنی فیضان سے مشرف ہوئے۔ آپ نے زندگی کا ایک طویل وقت والد گرامی امام عالی مقام سیدنا امام حسین ساتھ بھی بسر فرمایا۔ سیدنا امام زین العابدین ںعلم حدیث کے ماہر اور انتہائی فصیح و بلیغ شخصیت کے مالک تھے۔زہد و تقوی میں اعلی مقام پر فائز تھے۔ آپ کو عبادت و ریاضت کی کثرت کی وجہ سے علیہ السلام ’’سیدالعابدین اورزین العابدین‘‘ کے القابات سے پکارا جاتا ہے۔ایک بارجب خانہ کعبہ طواف کے لیے تشریف لائے تو لوگوں نے شاندار استقبال کیا اور جس طرف رخ فرماتے لوگ راستہ بنا دیتے تھے اس موقع پر عرب کے نامور شاعر فرزدق موقع پر موجود تھے انہوں نے آپ علیہ السلام کی شان میں شاندار قصیدہ لکھا جس کے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ’’ آپ  وہ شخصیت ہیں جن کوحرم شریف اور حرم شریف کے درودیوار بھی جانتے ہیں۔آپ کے پاس اکثر علمی مجالس کا اہتمام کیا جاتا جن میں ہزاروں لوگ آپں کے ظاہری اور باطنی علوم سے مستفیذ ہوتے، انتہائی سخی اور فیاض تھے، غرباء اور مساکین اور سائلین کو خوب نوازتے ۔‘‘
واقعہ کربلا کے موقع پرظلم و استبداد کی جو خونی تاریخ رقم ہوئی آپ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ موجود تھے اور سید الشہدا سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنی پھوپھی جان سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ہمراہ قافلے کو لیکر واپس مدینہ منورہ تشریف لائے۔آپ علیہ السلام جیسی شخصیات عالم اسلام کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد ظلم واستبداد کے نشہ میں چوریزید نے عصر جاہلیت کے انسانیت سوز رسم و رواج از سر نو اسلامی معاشرے میں رواج دینے پر کمر باندھ لی۔ یزید کے اس استبدادی دور میں حسینی انقلاب کے پاسبان سیدناامام زین العابدین علیہ السلام کی ذمہ داریاں شعب ابی طالب میں محصور توحید پرستوں کی سختیوں، بدر و احد کے معرکوں میں نبردآزما جیالوں کی تنہائیوں اور جان فشانیوں اور میدان کربلا میں پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں کے مراحل سے کم حیثیت کی حامل نہیں تھیں۔ قرآن کی محرومی، اسلام کی لاچاری اور آل رسول (ﷺ) کی مظلومی کے ’’ یزید زدہ ‘‘ماحول میں امام زین العابدین علیہ السلام کی حقیقی انقلابی روش میں گویا اسلام و قرآن کی تمام تعلیمات جمع ہوگئی تھیں اور اسلامی دنیا آپ  کے کردار و گفتار کے آئینہ میں ہی الہی احکام و معارف کا مطالعہ اور مشاہدہ کررہی تھی۔ روز عاشورا نیزہ و شمشیر اور سنان و تیر کی بارش میں سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کے تمام عزیز و جاں نثار شہید کردئے گئے، مردوں میں سے سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام شہادت کے کارزار میں زندہ بچے تھے،جو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ اہل حرم کے قافلہ سالار تھے۔ خون اور آگ کے درمیان امامت و ہدایت کی یہ دونوں شمعیں ارادۂ ایزدی اور فیصلے کے تحت محفوظ رکھی گئی تھیں،جنہوں نے اپنی نرم و لطیف حکمت آمیز روشنی کے ذریعہ شہادت ِ شہدائے کربلا کے پیغام کو تاریخ بشریت میں جاوداں بنادیا۔ سیدناامام زین العابدین علیہ السلام کو خدا نے محفوظ رکھا تھا کہ وہ اپنی 35 سالہ تبلیغی مہم کے دوران مبلغ حسینی کے طور پر اپنے اشکوں اور دعاؤں کے ذریعے یزیدی نفاق و جہالت کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کو ایمان و آگہی کی قوت عطا کرکے عدل و انصاف کی دار پر ہمیشہ کے لئے آویزاں کردیں اور دنیا کے مظلوموں کو بتادیں کہ اشک و دعا کی شمشیر سے بھی استبدادی قوتوں کے ساتھ جہاد و مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ظلم و عناد سے مرعوب بے حسی اور بے حیائی کے حصار میں بھی اشک و دعا کے ہتھیار سے تاریکیوں کے سینے چاک کئے جا سکتے ہیں اور پرچم حق کو سربلندی و سرافرازی عطا کی جا سکتی ہے۔
چنانچہ آج تاریخ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کبھی کبھی اشک و دعا کی زبان آہنی شمشیر سے زیادہ تیز چلتی ہے اور خود سروں کے سروں کا صفایا کردیتی ہے۔ سیدناامام زین العابدین علیہ السلام ، عبادتوں کی زینت، بندگی اور بندہ نوازی کی آبرو، دعا و مناجات کی جان، خضوع و خشوع اور خاکساری و فروتنی کی روح، جن کی خلقت ہی توکل اور معرفت کے ضمیر سے ہوئی، جنہوں نے دعا کو علو اور مناجات کو رسائی عطا کردی،جن کی ایک ایک سانس تسبیح اور ایک ایک نفس شکر خدا سے معمور ہے جن کی دعاؤں کا ایک ایک فقرہ آدمیت کے لئے سرمایۂ نجات اور نصیحت و حکمت سے سرشار ہے۔ سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کی مناجاتوں کے طفیل آسمان سجادۂ بندگی اور زمین صحیفہ ٔزندگی بنی ہوئی ہے۔امام عالی مقام سیدنا  امام حسین علیہ السلام کا سجدۂ آخر اور سیدنا امام حسیں علیہ السلام کی شہات کے بعد اپنے رب کے حضورنماز عشا ادا کر نے کے بعد سجدہ، معبود حق کی بارگاہ میں رکھی گئی پیشانی اذانِ صبح پر بلند ہوئی اور یہ سجدہ شکر تاریخ بشریت کا زریں ترین ستارۂ قسمت بن گیا۔ باپ کا سجدۂ آخر اور بیٹے کا سجدۂ شکر اسلام کی حیات اور مسلمانوں کی نجات کا ضامن ہے۔ درحقیقت صبروشجاعت اورحریت وآزادی کے پاسبان سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام ، کوفہ و شام کے بے بس و لاچار بیماروں کے دل و دماغ کا علاج کرنے کے لئے گئے تھے۔کوفہ بیمار تھا جس نے رسول اللہ ﷺ اور آل رسول ﷺ سے اپنا اطاعت و دوستی کا پیمان توڑدیا تھا، کوفہ والے بیمار تھے جن کے سروں پر ابن زیاد کے خوف کا بخار چڑھا ہوا تھا اور حق و باطل کی تمیز ختم ہوگئی تھی، شام بیمار تھا جہاں یزیدیت کی مسموم فضاؤں میں وحی و قرآن کا مذاق اڑایا جا رہا تھا اور اہل بیت نبوت و رسالت علیہم السلام کو معاذاللہ خارجی،باغی اور قیدی قرار دیا جا رہا تھا۔ شام والے بیمار تھے جو خاندان رسول ﷺ کے استقبال کے لئے سنگ و خشت لے کر جمع ہوئے تھے لیکن سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام ان کے علاج کے لئے خون حسین علیہ السلام سے رنگین خاک کربلا ساتھ لے کر گئے تھے کہ یزید کی زہریلی خوراک سے متاثر کوفیوں اور شامیوں کو خطرناک بیماریوں سے شفا عطا کریں۔ چنانچہ سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے ہمراہ خاندانِ رسول ﷺ کی خواتین نے اپنے خطبوں اورتقریروں کی ذوالفقار سے کوفہ و شام کے ضمیر فروشوں کے سردو پارہ کردئے کوفہ جو گہرے خواب میں ڈوبا ہوا تھا خطبوں کی گونج سے جاگ اٹھا شام نے،جو جاں کنی کی آخری سانسیں لے رہا تھا،ایک نئی انگڑائی لی،پورے عالم اسلام میں حیات و بیداری کی ایک ہلچل شروع ہوئی اور یزیدی حکومت کے بام و در لرزنے لگے۔
٭…٭…٭