سندھ کے معروف روحانی بزرگ اور صوفی شاعر
حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ
اسلام نے جو دینی اور دنیوی نعمتیں اپنے ماننے والوں کو بخشیں ان کے حصول میں بھی سرزمین سندھ کا خطہ سب سے پیش پیش رہا۔صوبہ سندھ کی سر زمین صوفیا ئے عظام اور اولیائے کرام کی سرزمین ہے اور اِن بزرگ ہستیوں نے اپنی تعلیمات، اپنی شاعری سے ہمیشہ امن و محبت کا درس دیا ہے ۔ سرزمین سندھ میں تصوف کی جڑیں خاصی پرانی اور گہری ہیں۔ سندھ کی صوفیانہ روایت کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خطہ سندھ کو صوفیا کا علاقہ کہا جاتا ہے۔یہ علاقہ متعدد عظیم صوفیا اور پیرانِ طریقت کا مرکز ِارشاد رہا ہے جہاں ان صوفیا نے امن و بھائی چارے کی تعلیم دی۔عوامی روایت کے بموجب سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں واقع مکلی قبرستان125000صوفیا کی آخری آرام گاہ ہے۔ان صوفیا کے سندھ میں طویل قیام کے باعث سندھی زبان کا صوفی ادب بھی خاصا مضبوط اور توانا ہے۔بعض محققین کے مطابق سندھ میں تصوف کے اصل بانی تیرہویں صدی عیسوی کے بزرگ حضرت خواجہ عثمان مروندی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو’ لعل شہباز‘ کے نام سے معروف ہیں۔ ان محققین کا خیال ہے کہ سندھ میں تصوف ہرات، قندھاراور ملتان کے راستوں سے پہنچا۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں سندھی تصوف اپنے عروج پر تھا جس کے واضح اثرات شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست درازائی، شاہ عنایت رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسے صوفیا کی شاعری میں ملتا ہے۔ اس سرزمین کے نامور مشہور صوفی شاعرحضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں جن کا شہرت کا ڈنکا نہ صرف سرزمین سندھ بلکہ زمانے بھر میں بج رہا ہے۔
حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 1689ء بمطابق، 1101ھ میں مٹیاری ضلع کی تحصیل ’ہالا‘ کی حویلی میں ہوئی ۔ آپ کے اجداد کا تعلق افغانستان کے صوبے ہرات سے بتایا جاتاہے۔ آپ کے والد کا نام سید حبیب اللہ تھاجن کا شمار اُس علاقے کے برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا تھا۔ قرب وجوار کے علاقوں میں بڑی عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ آپ’ہالا‘ کو خیرآباد کہہ کر’کوٹری ‘میں آکر مقیم ہوئے، ہالا، حویلی بھٹ سے نو کوس (ایک کوس تین ہزار گز یعنی 2743.2میٹر کے برابر ہوتا ہے) اور کوٹری سے چار میل دور ہے۔آپ کا سلسلۂ نسب مولائے کائنات سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے۔
حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی علیہ الرحمۃ کی ولادت کے کچھ دنوں بعد ان کے والد اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر کوٹری میں رہنے لگے۔ پانچ سال کی عمر میں شاہ لطیف کو آخوند نور محمد کی درس گاہ میں تحصیل علم کے لیے بھیجا گیا۔ لیکن انھوں نے ’الف‘ سے آگے ’ب‘اور اس کے بعد کے الفاظ پڑھنے سے انکار کردیا۔ایسی ایک حکایت بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی صداقت کہیں سے نظر نہیں آتی۔آپ کا تمام علوم سے واقف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت آپ کا مجموعہ کلام ہی ہے جس میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے ۔
سن شعور کو پہنچے تو وہ جوہر قابل بھی نمایاں ہونے لگا جو شاعرانہ مزاج کو نئی تب وتاب عطا کرنے کے لیے قدرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھاپھر ایک واقعہ نے شاعرانہ مزاج کو جو سوز وساز بخشا ، وہ بھی کسی نئے ذہنی انقلاب کا پیش خیمہ تھا۔ آپ کو سندھی زبان سے گہری انسیت تھی۔صحرا نوردی سے فارغ ہوکر ٹھٹھہ جا پہنچے۔وہاں ایک صوفی بزرگ مخدوم محمد معین ٹھٹھوی علیہ الرحمۃ سے ملاقات ہوئی۔ان کی صحبت نے شاہ صاحب کے دل میں عبادت الٰہی،ریاضت کی لگن، اولیاء اللہ سے محبت، والدین کی اطاعت، انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا۔ اسی جذبے نے شاہ صاحب کو والد کی خدمت میں پیش کر دیا۔آپ اپنے والد سے ملے تو وہ بہت خوش ہوئے۔
ادھر ’ہالا‘ میں شاہ لطیف کی روحانیت کے چرچے عام ہوگئے اور لوگ بڑی تعداد میں ان کے ارادت مندوں میں شامل ہونے لگے۔ ازداواجی زندگی میں منسلک ہونے کے بعدآپ نے کوٹری سے چار پانچ کوس دور ایک پُر فضا لیکن غیر آباد جگہ کو اپنا مسکن بنایا، اِسی جگہ کو اب ’ بھٹ شاہ‘کہا جاتا ہے ۔
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے ایک بہترین شاعر ثابت ہوئے،آپ نے قرآنی تعلیمات کے فروغ کے لئے جو خدمات انجام دیں وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ سندھی زبان میں آپ نے اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کے فروغ و اشاعت کا کام لے کر اس زبان کو غیر معمولی بنا دیا، اس زبان کو آپ نے اپنے افکارِ جلیلہ کے ذریعہ منصب اولیٰ تک پہنچا دیا اوریہ زبان زندہ جاوید ہو گئی۔ آپ کی جدت، ندرت اور اندازِ بیان نے لوگوں کو مسخر کر دیا۔ آپ نے عملی طور پر یہ بات ثابت کی کہ سندھی اور عربی زبان کا ایک ہی مشن ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کی جائے۔
شاہ صاحب کے مجموعہ کلام ’شاہ جو رسالو‘ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کو علم سے بخوبی واقفیت تھی، شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ میں فارسی اور عربی کا دور دورہ تھا اور شاہ صاحب کو سندھی کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور متعدد علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت تھی۔شاہ صاحب کے مجموعہ کلام میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، نوجوانی میں اس زمانے کے انقلابات نے بھی شاہ عبدللطیف کو بہت متأثر کیا۔شاہ صاحب کے کلام میں محبت، وحدت اور اخوت کا پیغام ہے، شاہ صاحب کا مطالعہ اتنا گہراتھا کہ اپنے آس پاس جو دیکھا، جو محسوس کیا اسے اپنے شعر کے قالب میں ڈھال لیا۔
شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں انسان کو مالک حقیقی کی یاد دلائی ہے۔’ شاہ جو رسالو ‘شاہ عبدالطیف بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے جسے ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب نے کرار جھیل کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہے۔ شاہ جو رسالو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کی سرزمین پر قرآن و حدیث کے بعد اسے سب سے زیادہ مانا جاتا ہے، شاہ جو رسالو میں اشعار اس طرح کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ شاعر نے ان اشعار کو روحانی وجد کی حالت میں گایا ہے۔ آپ کی شاعرانہ حیثیت بھی شہرت ِ دوام کی حامل ہے ،بالجملہ بحیثیت ایک انسان حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ انتہائی سادگی پسند ، پاک طینت ، سنجیدہ ، بردبار ، حلیم اور منکسر المزاج تھے۔ہمدردی وایثار، بے لوث رواداری وسیع الخیالی ، خوش آئند دور اندیشی ، مشفقانہ رحم دِلی اور ایسی ہی متعدد خوبیاں آپ کی سیرت کو ’ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ‘‘ کی حدوں سے ملاتی ہیں ۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی علیہ الرحمۃ کا وصال تریسٹھ سال کی عمر میں 14 صفر 1165ھ بمطابق 1176 عیسوی کو بھٹ شاہ میں ہوا۔ اس زمانے کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ صاحب کے مزار پر ایک دیدہ زیب مقبرہ تعمیر کروایا جو سندھی تعمیرات کا ایک شاہکار ہے۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دینی اور ملی خدمات اور آپ کے کلام پر آج پاکستان بھر کی جامعا ت میں تحقیقی مقالات تحریر کیے جارہے ہیں۔ جو کہ آپ کی شہرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
٭…٭…٭…٭