• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ

شیخ الشیوخ، سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے عظیم روحانی پیشوا 
 حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ



 

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ماہِ شعبان 539ھ مطابق 1145ء میں زنجان (جو کہ ملک آذربائیجان کادارالحکومت ہے) کے مضافات قصبہ’’سہرورد’’میں ہوئی، جس کی وجہ سے آپ ’’سہروردی‘‘ کہلائے۔ آپ کا اسمِ گرامی’’ شہاب الدین عمر‘‘، کنیت’’ ابوحفص ‘‘اور لقب’’ شیخ الاسلام‘‘ ، ’’شیخ الشیوخ‘‘ تھا۔آپ کے والد گرامی کا نام احمد بن عبد اللہ تھا اور آپ عظیم روحانی پیشوا اور سلسلہ سہروردیہ کے سربراہ حضرت عبد القاہر ابو نجیب السہروردی الصدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں اور انھیں کے مرید ہیں۔ ابنِ خلکان کی رائے کے مطابق آپ کا شجرہ ٔنسب 16 واسطوں سے خلیفۃ الرسول، سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے، یوں نسب کے اعتبار سے آپ رحمۃ صدیقی ہیں۔اور آپ کی ذات مبارک کا حسین امتزاج ہے کہ نام ’عمر‘ ہے،اولاد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہیں اور مرید سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ(یعنی آپ کا سلسلہ طریقت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے) کے ہیں۔
کم سنی میں ہی آپ کے سر سے والد ِگگرامی کا سایہ اٹھ گیا تھا اور چچا جناب عبد القاہر ابو نجیب السہروردی الصدیقی علیہ الرحمۃ کی کفالت میں پروان چڑھے۔ حضرت شیخ عبد القاہر ابو نجیب السہروردی الصدیقی رحمۃ اللہ علیہ جامعہ نظامیہ بغداد میں مسندِ تدریس پر فائز تھے، لہٰذا حضرت شیخ شہاب الدین علیہ الرحمۃ ان کے پاس بغداد شہر میں حاضر ہوئے اور پھر اُن ہی کی زیرِ سرپرستی، تعلیمی و روحانی سفر کا آغاز کیا۔ جامعہ نظامیہ میں آپ نے علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ اور دیگر علوم متداولہ میں غیر معمولی عبور حاصل کیا اورقلیل مدت میں علما کی صف میں ممتاز و معتبر شخصیت کی حیثیت سے رونما ہوئے۔ آپ علم حدیث میں کمال حاصل کرنے لیے حضرت امام ابوبکر بیہقی، علّامہ خطیب بغدادی اور امام ابو القاسم قشیری ایسے خورشیدانِ علم و معرفت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، وقتاً فوقتاً غوث الثقلین سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں بھی حاضری کا شرف حاصل کرتے رہتے۔ آپ نے بارگاہِ سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے مشربِ روحانیت و معرفت سے حظِ وافر پایا اور اسی طرح جام بھر بھر کے لوگوں میں تقسیم فرمایا۔
آپ فقہ میں حضرت امامِ شافعی علیہ الرحمۃ کے مقلد تھے اور انھیں کی فقہ کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔ علامہ عبد الرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ’’ آپ علمِ فقہ میں مہارت کاملہ کی وجہ سے درجۂ اجتہاد پر فائز تھے۔‘‘
آپ علم حدیث میں اس قدر ماہر اور جید تھے کہ اس زمانے کے بڑے بڑے شیوخ الحدیث نے آپ سے استفادہ کیا۔ آپ سلطان مسعود سلجوقی اور خلیفہ بغداد کی استدعا پر مدرسہ جامعہ نظامیہ کے صدر بھی مقرر ہوئے، آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے والوں میں مشہور فقیہ و محدّث، حافظ ابنِ عساکر، حضرت عز بن عبد السلام، حضرت شیخ شرف الدین سعدی، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی، حضرت فخرالدین عراقی جیسی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین عظیم شخصیات کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ کے متعلق جملہ سیرت نگاروں اور محققین نے یہ بات  واضحتًا ذکر کی ہے کہ آپ شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہوتے اور سنتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمیشہ پابندی کرتے۔ آپ کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ کا مقام سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع کے نور سے آراستہ ہے۔‘‘ آپ اپنے مریدین و متوسلین کو بھی احکامِ شریعت کی پاسداری اور اوامر و نہی کاملۃ عمل پیرا ہونے کی نصیحت فرماتے۔ سنتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روگرانی کرنے والوں کو دین کا چور اور ڈاکو قرار دیتے۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا، جب آپ  کی خانقاہ میں دس بارہ ہزار دینار کے ہدیے نہ آتے۔ تاہم، آپ وہ سب لوگوں میں تقسیم کردیتے اور اپنے پاس کچھ نہ رکھتے۔اِس ظاہری تجمل اور عزّت کے باوجود نہایت فقر اور تنگ دستی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، آپ اکثر سبز رنگ کی چادر زیب تن فرمایا تھے۔ نوافل میں طویل قرآت کرتے اور بیش تر اوقات روزے سے ہوتے۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:’’مَیں نے حضرت شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ کو جس قدر عبادت میں مشغول دیکھا، ایسا اپنی سیّاحت میں کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ حضرت شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ نے کئی حج بھی کیے۔ اورآخری حج 628ھ میں کیا، جس میں بارہ ہزار افراد شریک تھے۔
تصوف و سلوک اور روحانی پیشواؤوں میں آپ کا کوئی بھی ثانی نہ تھا، آپ کے متعلق ابنِ خلکان کا کہنا ہے:’’آپ کے زمانے میں کوئی بھی آپ  کے برابر نہیں تھا۔‘‘ غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے آپ کے متعلق فرمایا تھا: ’’یا عمر انت آخر المشہورین بالعراق‘‘ کہ اے عمر! تم سرزمین عراق کے آخری مشہور انسان ہو۔حضرت شہنشاہِ بغداد سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ملک عراق میں کوئی بھی آپ کا ہم پلہ بزرگ پیدا نہ ہوا۔ اطراف و اکناف سے کبار مشائخ اور جید علمائے حقہ آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے۔ پورا عالم بالعموم اور برصغیر (پاک وہند) بالخصوص آپ کے فیض سے مستفیض ہوا۔ ایک مقام پر آپ نے ارشاد فرمایا:’’ خلفائی فی الہند کثیرۃ ‘‘(کہ میرے خلفاء کی زیاہ تعداد ہندوستان میں ہے)۔ آپ کے چند مشہورخلفاء حضرات میں  شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی، مصلح الدین شیخ سعدی شیرازی، شیخ نجم الدین کبریٰ، شیخ فرید الدین عطار، سلطان سخی سرور  رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اِن کے علاوہ، حضرت فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمۃ اور حضرت قطب الدّین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ بھی کی زیارت سے مشرف ہوئے اور فیض حاصل کیا۔آپ کی تصنیف ’’عوارف المعارف‘‘ جو سلوک و تصوف کا بیش بہا خزانہ ہے وہ امہات الکتب میں شامل ہے۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ یکم محرّم الحرام 632ھ، بروز بدھ کو 93 برس کی عُمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کا مزار بغداد میں مرجعِ خاص وعام ہے۔